وہ تھے پہلو میں اور تھی چاندنی رات
ہماری زندگی تھی بس وہی رات
عجب چشمک زنی تھی وصل کی رات
نظر ان کی تھی اور تاروں بھری رات
نگاہ مست ان کی کہہ رہی ہے
کہیں ہوتی رہی ساقی گری رات
عبث ہے وعدۂ فردا تمہارا
مریض عشق کی ہے آخری رات
کسی نے وعدۂ فردا کیا ہے
ہمیں مر کر بسر کرنی پڑی رات
تبسمؔ سے کسی کے بن گئی تھی
مری خلوت سراپا چاندنی رات
غزل
وہ تھے پہلو میں اور تھی چاندنی رات
صوفی تبسم