وہ تیز حرف جو پھینکا گزرنے والے نے
اٹھا لیا ہے اسے گھر میں ڈرنے والے نے
نہ پوچھ کتنی بڑی تیرگی کو پار کیا
ذرا سی روشنی آنکھوں میں بھرنے والے نے
نہ جانے دن کا لہو کس قدر کشید کیا
شفق سے شام کے دامن کو بھرنے والے نے
بہت ہی گہرا تھا پانی میں ڈر گیا شاہیںؔ
صدا تو دی تھی مجھے بھی اترنے والے نے
غزل
وہ تیز حرف جو پھینکا گزرنے والے نے
جاوید شاہین