وہ تقاضائے جنوں اب کے بہاروں میں نہ تھا
ایک دامن بھی تو الجھا ہوا خاروں میں نہ تھا
اشک غم تھم گئے یاد آتے ہی ان کی صورت
جب چڑھا چاند تو پھر نور ستاروں میں نہ تھا
مرنے جینے کو نہ سمجھے تو خطا کس کی ہے
کون سا حکم ہے جو ان کے اشاروں میں نہ تھا
ہر قدم خاک سے دامن کو بچایا تم نے
پھر یہ شکوہ ہے کہ میں راہ گزاروں میں نہ تھا
تم سا لاکھوں میں نہ تھا جان تمنا لیکن
ہم سا محروم تمنا بھی ہزاروں میں نہ تھا
ہوشؔ کرتے نہ اگر ضبط فغاں کیا کرتے
پرسش غم کا سلیقہ بھی تو یاروں میں نہ تھا
غزل
وہ تقاضائے جنوں اب کے بہاروں میں نہ تھا
ہوش ترمذی