وہ تبسم تھا جہاں شاید وہیں پر رہ گیا
میری آنکھوں کا ہر اک منظر کہیں پر رہ گیا
میں تو ہو کر آ گیا آزاد اس کی قید سے
دل مگر اس جلد بازی میں وہیں پر رہ گیا
کون سجدوں میں نہاں ہے جو مجھے دکھتا نہیں
کس کے بوسہ کا نشاں میری جبیں پر رہ گیا
ہم کو اکثر یہ خیال آتا ہے اس کو دیکھ کر
یہ ستارہ کیسے غلطی سے زمیں پر رہ گیا
ہم لبوں کو کھول ہی کب پائے اس کے سامنے
اک نیا الزام پھر دیکھو ہمیں پر رہ گیا
غزل
وہ تبسم تھا جہاں شاید وہیں پر رہ گیا
امتیاز خان