وہ سن کر حور کی تعریف پردے سے نکل آئے
کہا پھر مسکرا کر حسن زیبا اس کو کہتے ہیں
اجل کا نام دشمن دوسرے معنی میں لیتا ہے
تمہارے چاہنے والے تمنا اس کو کہتے ہیں
مرے مدفن پہ کیوں روتے ہو عاشق مر نہیں سکتا
یہ مر جانا نہیں ہے صبر آنا اس کو کہتے ہیں
نمک بھر کر مرے زخموں میں تم کیا مسکراتے ہو
مرے زخموں کو دیکھو مسکرانا اس کو کہتے ہیں
زمانے سے عداوت کا سبب تھی دوستی جن کی
اب ان کو دشمنی ہے ہم سے دنیا اس کو کہتے ہیں
دکھاتے ہم نہ آئینہ تو یہ کیوں کر نظر آتا
بشر حوروں سے اچھا تم نے دیکھا اس کو کہتے ہیں
غزل
وہ سن کر حور کی تعریف پردے سے نکل آئے (ردیف .. ن)
بیخود دہلوی