وہ ستم پرور بہ چشم اشک بار آ ہی گیا
چاک دامانی پہ میری اس کو پیار آ ہی گیا
مٹتے مٹتے مٹ گئی جان وفا کی آرزو
آتے آتے بے قراری کو قرار آ ہی گیا
چپکے چپکے مجھ پہ میری خامشی ہنستی رہی
روتے روتے جذب دل پر اختیار آ ہی گیا
کوئی وعدہ جس کا معنی آشنا ہوتا نہیں
پھر اسی وعدہ شکن پر اعتبار آ ہی گیا
یا الٰہی جذبۂ ہوش و خرد کی خیر ہو
منتظر جس کا جنوں تھا وہ دیار آ ہی گیا

غزل
وہ ستم پرور بہ چشم اشک بار آ ہی گیا
بشیر فاروق