وہ ستم گر ہے خیالات سمجھنے والا
مجھ سے پہلے مرے جذبات سمجھنے والا
میں نے رکھا ہے ہمیشہ ہی تبسم لب پر
رو دیا کیوں مرے حالات سمجھنے والا
جو نہ سمجھے تیری منزل وہ یوں ہی چلتا رہا
رک گیا تیرے مقامات سمجھنے والا
جو نہ سمجھے وہ بناتے رہے لاکھوں باتیں
ہوا خاموش تری بات سمجھنے والا
راز تقدیر پے کیا روشنی ڈالے گا کوئی
خود سوالی ہے سوالات سمجھنے والا
غزل
وہ ستم گر ہے خیالات سمجھنے والا
قمر جلال آبادی