وہ شعر سن کے مرا ہو گیا دوانہ کیا
میں سچ کہوں گا تو مانے گا یہ زمانہ کیا
کبھی تو آنا ہے دنیا کے سامنے اس کو
اب اس کو ڈھونڈھنے دیر و حرم میں جانا کیا
سنا ہے کام چلاتے ہو تم بہانوں سے
ادھار دو گے مجھے بھی کوئی بہانہ کیا
تمہاری یادوں کی گرمی ہے سرد راتوں میں
لحاف ایسے میں اب اوڑھنا بچھانا کیا
جلے گا جتنا بھی دنیا کو روشنی دے گا
چراغ علم و ہنر ہے اسے بجھانا کیا
تباہ کرنے پہ آئے تو پھر نہیں سنتی
وہ نرم رو ہے ندی کا مگر ٹھکانہ کیا
غزل
وہ شعر سن کے مرا ہو گیا دوانہ کیا
نذیر نظر