وہ شکل وہ شناخت وہ پیکر کی آرزو
پتھر کی ہو کے رہ گئی پتھر کی آرزو
چھت ہو فلک تو خاک اڑانے کو پاؤں میں
صحرا میں کھینچتی ہے ہمیں گھر کی آرزو
زخمی کئے ہیں پاؤں کبھی لائی راہ پر
کب کون جان پایا ہے ٹھوکر کی آرزو
اپنی گرفت میں لئے اڑتا پھرے کہیں
پرواز کو ہے کب سے اسی پر کی آرزو
رہتی ہے مجھ میں کب سے کنواری ہے آج تک
اک آرزو کے اپنے سویمبر کی آرزو
اکھلیشؔ کب بجھی ہے ہوس کی شدید پیاس
دریا تمام پی لے سمندر کی آرزو
غزل
وہ شکل وہ شناخت وہ پیکر کی آرزو
اکھلیش تیواری