EN हिंदी
وہ شکل وہ شناخت وہ پیکر کی آرزو | شیح شیری
wo shakl wo shanaKHt wo paikar ki aarzu

غزل

وہ شکل وہ شناخت وہ پیکر کی آرزو

اکھلیش تیواری

;

وہ شکل وہ شناخت وہ پیکر کی آرزو
پتھر کی ہو کے رہ گئی پتھر کی آرزو

چھت ہو فلک تو خاک اڑانے کو پاؤں میں
صحرا میں کھینچتی ہے ہمیں گھر کی آرزو

زخمی کئے ہیں پاؤں کبھی لائی راہ پر
کب کون جان پایا ہے ٹھوکر کی آرزو

اپنی گرفت میں لئے اڑتا پھرے کہیں
پرواز کو ہے کب سے اسی پر کی آرزو

رہتی ہے مجھ میں کب سے کنواری ہے آج تک
اک آرزو کے اپنے سویمبر کی آرزو

اکھلیشؔ کب بجھی ہے ہوس کی شدید پیاس
دریا تمام پی لے سمندر کی آرزو