وہ شخص جو رکھتا ہے جمال اور طرح کا
ہے اس سے بچھڑنے کا ملال اور طرح کا
آثار خرابی کے ہیں، آغاز سے ظاہر
لگتا ہے کہ گزرے گا، یہ سال اور طرح کا
اس شہر زیاں کار کے امکان سے باہر
میں اب کے دکھاؤں گا، کمال اور طرح کا
ہوتا ہے ہمیشہ ہی نئے رنج میں ڈوبا
اس جادۂ وحشت پہ دھمال اور طرح کا
اس شہر فسوں گر کے عذاب اور، ثواب اور
ہجر اور طرح کا ہے، وصال اور طرح کا
اب گھر سے نکلنا ہی پڑے گا کہ مخالف
اس بار! اٹھاتے ہیں، سوال اور طرح کا
غزل
وہ شخص جو رکھتا ہے جمال اور طرح کا
خالد معین