وہ شخص جو نظر آتا تھا ہر کسی کی طرح
حصار توڑ کے نکلا ہے روشنی کی طرح
صدا میں ڈھل کے لبوں تک جو حرف آیا تھا
اب اس کا زہر بھی ڈستا ہے خامشی کی طرح
یہ سال طول مسافت سے چور چور گیا
یہ ایک سال تو گزرا ہے اک صدی کی طرح
تمہی کوئی شجر سایہ دار ڈھونڈ رکھو
کہ وہ تو اپنے لیے بھی ہے اجنبی کی طرح
یہ عہد ٹوٹ رہا ہے نئے افق کے لیے
حیات ڈال چکی ہے خود آگہی کی طرح
غزل
وہ شخص جو نظر آتا تھا ہر کسی کی طرح
اسرار زیدی