وہ شب کے سائے میں فصل نشاط کاٹتے ہیں
ہم اپنی ذات کے حجرے میں رات کاٹتے ہیں
عجیب لوگ ہیں اس عہد بے مروت کے
زبان کاٹ نہ پائیں تو بات کاٹتے ہیں
یہ لمحہ اہل محبت پہ سخت بھاری ہے
یہ لمحہ اہل محبت کے ساتھ کاٹتے ہیں
تھکن سے پورا بدن چور چور ہوتا ہے
پہاڑ کاٹتے ہیں ہم کہ رات کاٹتے ہیں
یہ رنگ لے کے کہاں آ گئے ہو تم اظہرؔ
یہاں تو لوگ مصور کے ہاتھ کاٹتے ہیں
غزل
وہ شب کے سائے میں فصل نشاط کاٹتے ہیں
اظہر ادیب