EN हिंदी
وہ سرد دھوپ ریت سمندر کہاں گیا | شیح شیری
wo sard dhup ret samundar kahan gaya

غزل

وہ سرد دھوپ ریت سمندر کہاں گیا

سدرہ سحر عمران

;

وہ سرد دھوپ ریت سمندر کہاں گیا
یادوں کے قافلے سے دسمبر کہاں گیا

کٹیا میں رہ رہا تھا کئی سال سے جو شخص
تھا عشق نام جس کا قلندر کہاں گیا

طوفان تھم گیا تھا ذرا دیر میں مگر
اب سوچتی ہوں دل سے گزر کر کہاں گیا

تیری گلی کی مجھ کو نشانی تھی یاد پر
دیوار تو وہیں ہے ترا در کہاں گیا

چائے کے تلخ گھونٹ سے اٹھتا ہوا غبار
وہ انتظار شام وہ منظر کہاں گیا

اس کی سیاہ رنگ سے نسبت عجیب تھی
وہ خوش لباس ہجر پہن کر کہاں گیا

رکھا نہیں تھا لوح محبت پہ آج پھول
کس بات پر خفا تھا مجاور کہاں گیا