وہ سنگلاخ زمینوں میں شعر کہتا تھا
عجیب شخص تھا کھلتا گلاب جیسا تھا
سلگتے جسم پہ میرے گلوں کا سایہ تھا
ترے وجود کا وہ لمس کتنا مہکا تھا
جو آشنا تھے بہت اجنبی سے لگتے تھے
وہ اجنبی تھا مگر آشنا سا لگتا تھا
پرند شام ڈھلے گھونسلوں کی سمت چلے
چراغ جلتے ہی اس کو بھی لوٹ آنا تھا
اسی درخت کو موسم نے بے لباس کیا
میں جس کے سائے میں تھک کر اداس بیٹھا تھا
ہمارے گرد وہی آہنی سلاخیں ہیں
سیاہ رات کا کٹنا تو ایک دھوکا تھا
چراغ دونوں کناروں کے بجھ گئے ساغرؔ
ہماری راہ میں حائل لہر کا دریا تھا

غزل
وہ سنگلاخ زمینوں میں شعر کہتا تھا
امتیاز ساغر