وہ صنم خوگر وفا نہ ہوا
یہ بھی اچھا ہوا برا نہ ہوا
آ گیا لطف زندگانی کا
درد جو قابل دوا نہ ہوا
عمر بھر ہم جدا رہے اس سے
ہم سے دم بھر بھی جو جدا نہ ہوا
کہے دیتی ہیں شرمگیں نظریں
کیا ہوا رات اور کیا نہ ہوا
شوقؔ نے لکھے سینکڑوں دفتر
حرف مطلب مگر ادا نہ ہوا
غزل
وہ صنم خوگر وفا نہ ہوا
شوق دہلوی مکی