وہ سمجھتا ہے اسے جو راز دار نغمہ ہے
آہ کہتے ہیں جسے صرف اک شرار نغمہ ہے
منحصر جس پر ازل سے کاروبار نغمہ ہے
درد کی آنکھوں میں وہ خواب بہار نغمہ ہے
زندہ رہنے کی تمنا ہو تو پھر کیا کچھ نہ ہو
دل کے سناٹے پہ مجھ کو اعتبار نغمہ ہے
کس سے کیجے اور کیوں کیجے بیان سوز دل
یہ بھری دنیا تو یارو پاسدار نغمہ ہے
اور بھی دو گام اے محروم عیش زندگی
حد گریہ سے ذرا آگے دیار نغمہ ہے
نغمہ زن ہوں یوں کہ یاروں کا بھرم قائم رہے
ورنہ محفل کی فضا ناساز گار نغمہ ہے
اب ہے لہجے میں نکیلا پن لبوں پر زہر خند
اب یقیں آیا کہ نازشؔ راز دار نغمہ ہے
غزل
وہ سمجھتا ہے اسے جو راز دار نغمہ ہے
نازش پرتاپ گڑھی