وہ سعی قفس میں کر کہ ٹوٹے
اس میں رہے بال و پر کہ ٹوٹے
پائے طلب اس کی جستجو میں
یاں تک پھرے در بہ در کہ ٹوٹے
رونے کا تار بندھ رہا ہے
ایسا نہ ہو چشم تر کہ ٹوٹے
ہے بے مے عشق شیشۂ دل
مار اس کو تو سنگ پر کہ ٹوٹے
دنیا سے تو ٹوٹتا نہیں دل
ایسی کچھ فکر کر کہ ٹوٹے
ہوئی بس کہ خوشیٔ زخم تازہ
ہیں ٹانکے ترے جگر کہ ٹوٹے
محشر میں بھی نیند غافلوں کی
ممکن نہیں بے خبر کہ ٹوٹے
ؔجوشش ہر خار دشت پر یاں
اس طرح قدم نہ دھر کہ ٹوٹے
غزل
وہ سعی قفس میں کر کہ ٹوٹے
جوشش عظیم آبادی