وہ سچ کے چہرے پہ ایسا نقاب چھوڑ گیا
رخ حیات پہ جیسے عذاب چھوڑ گیا
نتیجہ کوشش پیہم کا یوں ہوا الٹا
میں آسمان پہ موج سراب چھوڑ گیا
وہ کون تھا جو مری زندگی کے دفتر سے
حروف لے گیا خالی کتاب چھوڑ گیا
بہار بن کے وہ آیا گیا بھی شان کے ساتھ
کہ زرد پتوں پہ رنگ گلاب چھوڑ گیا
مرے لہو میں جو آیا تھا میہماں بن کر
مری رگوں میں وہ اک آفتاب چھوڑ گیا
گیا تو ساتھ وہ لیتا گیا ہر اک نغمہ
خلا کی گود میں ٹوٹا رباب چھوڑ گیا
ملا نہ جذبۂ تشکیک کو لباس کوئی
وہ ہر سوال کا ایسا جواب چھوڑ گیا
بکھیرتا ہے کرامتؔ جو درد کی کرنیں
وہ خواب ذہن میں اک ماہتاب چھوڑ گیا
غزل
وہ سچ کے چہرے پہ ایسا نقاب چھوڑ گیا
کرامت علی کرامت