وہ سب میں ہم کو بار دگر دیکھتے رہے
ہم ان کا انتخاب نظر دیکھتے رہے
دامن بچا کے اشکوں سے وہ تو نکل گئے
ہم دیر تک زمیں پر گہر دیکھتے رہے
ہم بے نیاز بیٹھے ہوئے ان کی بزم میں
اوروں کی بندگی کا اثر دیکھتے رہے
آئی سحر تو اور بڑھا بجلیوں کا زور
شب بھر ہم انتظار سحر دیکھتے رہے
شعلوں کی زد میں تھے سبھی کس کو پکارتے
ہر سمت خرمنوں میں شرر دیکھتے رہے
کیوں کر سنبھالتے ہمیں وہ ناخدا جو خود
ساحل کی عافیت سے بھنور دیکھتے رہے
منزل کی دھن میں آبلہ پا چل کھڑے ہوئے
اور شہسوار گرد سفر دیکھتے رہے
غزل
وہ سب میں ہم کو بار دگر دیکھتے رہے
ہاشم رضا جلالپوری