وہ سامنے جب آ جاتے ہیں سکتے کا سا عالم ہوتا ہے
اس دل کی تباہی کیا کہئے امرت بھی جسے سم ہوتا ہے
دیتے ہیں اسی کو جام طرب جو جرعہ کش غم ہوتا ہے
کب باغ جہاں ہیں خندۂ گل بے گریۂ شبنم ہوتا ہے
جب ولولہ صادق ہوتا ہے جب عزم مصمم ہوتا ہے
تکمیل کا ساماں غیب سے خود اس وقت فراہم ہوتا ہے
انجام وفا بھی دیکھ لیا اب کس لئے سر خم ہوتا ہے
نازک ہے مزاج حسن بہت سجدے سے بھی برہم ہوتا ہے
یہ آگ دہکتی ہے جتنی اتنا ہی دھواں کم دیتی ہے
احساس ستم بڑھ جاتا ہے تو شور فغاں کم ہوتا ہے
رگ رگ میں نظام فطرت کی رقصاں ہے محبت کی بجلی
ہو لاکھ تضاد اضداد میں بھی اک رابطہ باہم ہوتا ہے
مل جل کے بہ رنگ شیر و شکر دونوں کے نکھرتے ہیں جوہر
دریاؤں کے سنگم سے بڑھ کر تہذیبوں کا سنگم ہوتا ہے
تاراج نشیمن کھیل سہی صیاد مگر اتنا سن لے
جب عشق کی دنیا لٹتی ہے خود حسن کا ماتم ہوتا ہے
دیوانوں کے جیب و دامن کا اڑتا ہے فضا میں جو ٹکڑا
مستقبل ملت کے حق میں اقبال کا پرچم ہوتا ہے
منصور جو ہوتا اہل نظر تو دعوئ باطل کیوں کرتا
اس کی تو زباں کھلتی ہی نہیں جو راز کا محرم ہوتا ہے
تا چند سہیلؔ افسردۂ غم کیا یاد نہیں تاریخ حرم
ایماں کے جہاں پڑتے ہیں قدم پیدا وہیں زمزم ہوتا ہے
غزل
وہ سامنے جب آ جاتے ہیں سکتے کا سا عالم ہوتا ہے
اقبال سہیل