وہ روکتا ہے مجھے شہر میں نکلنے سے
بھڑک اٹھوں نہ کہیں آندھیوں میں جلنے سے
یہ طرز تلخ نوائی کچھ اتنی سہل نہیں
زباں پہ آبلے پڑ جائیں سچ اگلنے سے
خلا ہوائی سہاروں سے پر نہیں ہوتا
بلند ہوتا ہے انساں کہیں اچھلنے سے
خود اپنے آپ سے پوشیدہ رہنا نا ممکن
نظر بدلتی نہیں آئنہ بدلنے سے
کھڑا ہوں میں کسی گرتی ہوئی فصیل پہ کیا
توازن اور بگڑنے لگا سنبھلنے سے
بڑے خلوص سے مانگی تھی روشنی کی دعا
بڑھا کچھ اور اندھیرا چراغ جلنے سے
لٹا دیا جنہیں جیتی ہوئی رقم کی طرح
وہ دن پلٹ تو نہ آئیں گے ہاتھ ملنے سے
چھٹے گی کیسے مظفرؔ سیاہی قسمت کی
نکل تو آئے گا خورشید رات ڈھلنے سے

غزل
وہ روکتا ہے مجھے شہر میں نکلنے سے
مظفر وارثی