وہ روشنی ہے کہ آنکھوں کو کچھ سجھائی نہ دے
سکوت وہ کہ دھماکہ بھی اب سنائی نہ دے
پہنچ گیا ہوں زمان و مکان کے ملبے تک
مری انا مجھے الزام نارسائی نہ دے
اگر کہیں ہے تو دل چیر کر دکھا مجھ کو
تو اپنی ذات کا عرفان دے خدائی نہ دے
ازل کے ٹوٹتے رشتوں کی اس کشاکش میں
پکار ایسی ادا سے مجھے سنائی نہ دے
نکل چکا ہوں میں اپنی کمان سے آگے
تعلقات گزشتہ کی اب دہائی نہ دے
غزل
وہ روشنی ہے کہ آنکھوں کو کچھ سجھائی نہ دے
مظہر امام