وہ رات بے پناہ تھی اور میں غریب تھا
وہ جس نے یہ چراغ جلایا عجیب تھا
وہ روشنی کہ آنکھ اٹھائی نہیں گئی
کل مجھ سے میرا چاند بہت ہی قریب تھا
دیکھا مجھے تو طبع رواں ہو گئی مری
وہ مسکرا دیا تو میں شاعر ادیب تھا
رکھتا نہ کیوں میں روح و بدن اس کے سامنے
وہ یوں بھی تھا طبیب وہ یوں بھی طبیب تھا
ہر سلسلہ تھا اس کا خدا سے ملا ہوا
چپ ہو کہ لب کشا ہو بلا کا خطیب تھا
موج نشاط و سیل غم جاں تھے ایک ساتھ
گلشن میں نغمہ سنج عجب عندلیب تھا
میں بھی رہا ہوں خلوت جاناں میں ایک شام
یہ خواب ہے یا واقعی میں خوش نصیب تھا
حرف دعا و دست سخاوت کے باب میں
خود میرا تجربہ ہے وہ بے حد نجیب تھا
دیکھا ہے اس کو خلوت و جلوت میں بارہا
وہ آدمی بہت ہی عجیب و غریب تھا
لکھو تمام عمر مگر پھر بھی تم علیمؔ
اس کو دکھا نہ پاؤ وہ ایسا حبیب تھا
غزل
وہ رات بے پناہ تھی اور میں غریب تھا
عبید اللہ علیم