وہ راہبر تو نہیں تھا اعادہ کیا کرتا
بنا کے راہ میں وہ کوئی جادہ کیا کرتا
نہا رہا ہو اجالوں کے جو سمندر میں
وہ لے کے ظلمت شب کا لبادہ کیا کرتا
ہر ایک شخص جہاں مصلحت سے ملتا ہو
وہاں کسی سے کوئی استفادہ کیا کرتا
نہ جس میں رنگ نہ خاکہ نہ کوئی عکس جمال
بنا کے ایسی میں تصویر سادہ کیا کرتا
محاذ جنگ میں وہ اپنے فرض کی خاطر
نہ دیتا جان تو آخر پیادہ کیا کرتا
جہاں پہ ہوتا ہو انسانیت کا خوں عارفؔ
میں ایسی دنیا میں رہ کر زیادہ کیا کرتا

غزل
وہ راہبر تو نہیں تھا اعادہ کیا کرتا
یعقوب عارف