وہ پیچ و خم جہاں کی ہر اک رہ گزر میں ہے
خود کاروان وقت بھی اب تک سفر میں ہے
یارو کہاں وہ جلوۂ شمس و قمر میں ہے
جو نور جو ضیا مرے داغ جگر میں ہے
ہے وعدۂ وصال صنم کی وہ سر خوشی
ہر شے حسین اب مری فکر و نظر میں ہے
منزل بغیر طے کئے لیتا نہیں ہوں چین
یہ دم یہ حوصلہ ہی کہاں راہبر میں ہے
کچھ غم نہیں کہ ہو مری حد نظر سے دور
لیکن تمہاری یاد تو قلب و جگر میں ہے
ہر بحر ہر زمین میں کہتا ہوں خوب شعر
کب یہ کمال اب کسی اہل ہنر میں ہے
جس سے عیاں ہو دہر کا احساس بے رخی
آئینہ وہ جمالؔ ہماری نظر میں ہے

غزل
وہ پیچ و خم جہاں کی ہر اک رہ گزر میں ہے
ہربنس لال انیجہ جمالؔ