وہ پو پھٹی وہ کرن سے کرن میں آگ لگی
وہ شب کی زلف شکن در شکن میں آگ لگی
سلگ اٹھی وہ ردائے نجوم و کاہکشاں
وہ دیکھ دامن چرخ کہن میں آگ لگی
نشاط گرمیٔ محفل تھی جس کی تابانی
اسی چراغ سے کیوں انجمن میں آگ لگی
ہزار شمس و قمر بجھ گئے پہ یہ نہ بجھی
یہ کس دیئے سے پتنگوں کے من میں آگ لگی
تمام عمر کے آنسو اسے بجھا نہ سکے
جو دل سے تا بہ جگر دم زدن میں آگ لگی
بھلا سکے گی نہ دنیا یہ حادثہ کہ ادیبؔ
چراغ لالہ و گل سے چمن میں آگ لگی
غزل
وہ پو پھٹی وہ کرن سے کرن میں آگ لگی
ادیب سہارنپوری