EN हिंदी
وہ پرندہ ہے کہاں شب کو چہکنے والا | شیح شیری
wo parinda hai kahan shab ko chahakne wala

غزل

وہ پرندہ ہے کہاں شب کو چہکنے والا

وزیر آغا

;

وہ پرندہ ہے کہاں شب کو چہکنے والا
رات بھر نافۂ گل بن کے مہکنے والا

لکۂ ابر تھا بس دیکھنے آیا تھا مجھے
کوئی بادل تو نہیں تھا وہ چھلکنے والا

راکھ میں آنکھ میں پھولوں پہ کسیلی شب میں
بے ضرورت بھی تو چمکا ہے چمکنے والا

کس کی آواز میں ہے ٹوٹتے پتوں کی صدا
کون اس رت میں ہے بے وجہ سسکنے والا

چاند ہو روز بدلتے ہو تمہارا کیا ہے
میں سمندر ہوں ابد تک نہ بہکنے والا

پی لیا لوٹ گیا خشک ہوا کچھ تو بتا
کیا ہوا آنکھ سے آنسو وہ ٹپکنے والا