EN हिंदी
وہ پردہ زینت در کے سوا کچھ اور نہیں | شیح شیری
wo parda zinat-e-dar ke siwa kuchh aur nahin

غزل

وہ پردہ زینت در کے سوا کچھ اور نہیں

سیف بجنوری

;

وہ پردہ زینت در کے سوا کچھ اور نہیں
ہمارے حسن نظر کے سوا کچھ اور نہیں

سراغ کاہکشاں اہل دل کو مل ہی گیا
تمہاری راہ گزر کے سوا کچھ اور نہیں

نہ جانے کون سا ایفائے عہد کا دن ہو
تمہیں تو شام و سحر کے سوا کچھ اور نہیں

مرادیں عشق میں سب کو ملیں مگر مجھ کو
نصیب درد جگر کے سوا کچھ اور نہیں

یہ کس طلسم میں مجھ کو حیات لے آئی
جہاں فریب نظر کے سوا کچھ اور نہیں

نہ پوچھئے مری ناکامیٔ منازل شوق
حصول گرد سفر کے سوا کچھ اور نہیں

وہ نامراد محبت ہوں جس کے دامن میں
سرشک دیدۂ تر کے سوا کچھ اور نہیں

حیات عشق کی روداد کیا کہوں اے سیفؔ
عذاب شام و سحر کے سوا کچھ اور نہیں