وہ پہلی جیسی وحشتیں وہ حال ہی نہیں رہا
کہ اب تو شوق راحت وصال ہی نہیں رہا
تمام حسرتیں ہر اک سوال دفن کر چکے
ہمارے پاس اب کوئی سوال ہی نہیں رہا
تلاش رزق میں یہ شام اس طرح گزر گئی
کوئی ہے اپنا منتظر خیال ہی نہیں رہا
ان آتےجاتے روز و شب کی گردشوں کودیکھ کر
کسی کے ہجر کا کوئی ملال ہی نہیں رہا
ہمارا کیا بنے گا کچھ نہ کچھ تو اس پہ سوچتے
مگر کبھی ہمیں غم مآل ہی نہیں رہا
تمہارے خال و خد پہ اک کتاب لکھ رہے تھے ہم
مگر تمہارا حسن بے مثال ہی نہیں رہا
سنوارتا نکھارتا میں کیسے اپنے آپ کو
تمہارے بعد اپنا کچھ خیال ہی نہیں رہا
ذرا سی بات سے دلوں میں اتنا فرق آ گیا
تعلقات کا تو پھر سوال ہی نہیں رہا
غزل
وہ پہلی جیسی وحشتیں وہ حال ہی نہیں رہا
اعتبار ساجد