EN हिंदी
وہ پہلے اندھے کنویں میں گرائے جاتے ہیں | شیح شیری
wo pahle andhe kuen mein girae jate hain

غزل

وہ پہلے اندھے کنویں میں گرائے جاتے ہیں

فخر زمان

;

وہ پہلے اندھے کنویں میں گرائے جاتے ہیں
جو سنگ شیشے کے گھر میں سجائے جاتے ہیں

عجیب رسم ہے یارو تمہاری محفل میں
دیئے جلانے سے پہلے بجھائے جاتے ہیں

ہماری سوچ نے کروٹ یہ کیسی بدلی ہے
ہم اپنی آگ میں خود کو جلائے جاتے ہیں

بڑا ہی زور ہے اس بار مینہ کے قطروں میں
کہ پتھروں پہ بھی گھاؤ لگائے جاتے ہیں

نئے طریق سے برسات اب کے آئی ہے
کہ لوگ ریت کے گھر بھی بنائے جاتے ہیں

ہماری راکھ سے اٹھے گا اک نیا انساں
اسی خیال سے خود کو جلائے جاتے ہیں

کسی شجر سے کوئی سانپ گر کے کاٹ نہ لے
ہم آج آگ سروں پر اٹھائے جاتے ہیں

جو دیپ اپنے لہو سے جلائے تھے ہم نے
وہ ایک پھونک سے ان کو بجھائے جاتے ہیں

ہمارا جسم ہے سائے میں دھوپ سر پر ہے
بڑے ہنر سے وہ روزن بنائے جاتے ہیں

کچھ ایسے فخرؔ چمن کا نظام بدلا ہے
بغیر آب کے پودے اگائے جاتے ہیں