EN हिंदी
وہ پاس کیا ذرا سا مسکرا کے بیٹھ گیا | شیح شیری
wo pas kya zara sa muskura ke baiTh gaya

غزل

وہ پاس کیا ذرا سا مسکرا کے بیٹھ گیا

زبیر علی تابش

;

وہ پاس کیا ذرا سا مسکرا کے بیٹھ گیا
میں اس مذاق کو دل سے لگا کے بیٹھ گیا

جب اس کی بزم میں دار و رسن کی بات چلی
میں جھٹ سے اٹھ گیا اور آگے آ کے بیٹھ گیا

درخت کاٹ کے جب تھک گیا لکڑ ہارا
تو اک درخت کے سائے میں جا کے بیٹھ گیا

تمہارے در سے میں کب اٹھنا چاہتا تھا مگر
یہ میرا دل ہے کہ مجھ کو اٹھا کے بیٹھ گیا

جو میرے واسطے کرسی لگایا کرتا تھا
وہ میری کرسی سے کرسی لگا کے بیٹھ گیا

پھر اس کے بعد کئی لوگ اٹھ کے جانے لگے
میں اٹھ کے جانے کا نسخہ بتا کے بیٹھ گیا