وہ نیند ادھوری تھی کیا خواب ناتمام تھا کیا
میں جس کو سوچ رہا تھا خیال خام تھا کیا
ادھر سے ہی کوئی گزرا جدھر سے گزرا تو
تری مثال کوئی اور خوش خرام تھا کیا
ملوں تو کیسے ملوں بے طلب کسی سے میں
جسے ملوں وہ کہے مجھ سے کوئی کام تھا کیا
اسی کے ساتھ رہا جس نے تجھ سے نفرت کی
تری نظر میں ظفرؔ اس کا کچھ مقام تھا کیا

غزل
وہ نیند ادھوری تھی کیا خواب ناتمام تھا کیا
صابر ظفر