EN हिंदी
وہ نیچی نگاہیں وہ حیا یاد رہے گی | شیح شیری
wo nichi nigahen wo haya yaad rahegi

غزل

وہ نیچی نگاہیں وہ حیا یاد رہے گی

انور صابری

;

وہ نیچی نگاہیں وہ حیا یاد رہے گی
مل کر بھی نہ ملنے کی ادا یاد رہے گی

ممکن ہے مرے بعد بھلا دیں مجھے لیکن
تا عمر انہیں میری وفا یاد رہے گی

جب میں ہی نہیں یاد رفیقان سفر کو
حیراں ہوں کہ منزل انہیں کیا یاد رہے گی

کچھ یاد رہے یا نہ رہے ذکر گلستاں
غنچوں کے چٹکنے کی صدا یاد رہے گی

محروم رہے اہل چمن نکہت گل سے
بیگانگی موج صبا یاد رہے گی

پلکوں پہ لرزتے رہے انورؔ جو شب غم
مجھ کو انہیں تاروں کی ضیا یاد رہے گی