EN हिंदी
وہ نہتا نہیں اکیلا ہے | شیح شیری
wo nihatta nahin akela hai

غزل

وہ نہتا نہیں اکیلا ہے

وکاس شرما راز

;

وہ نہتا نہیں اکیلا ہے
معرکہ اب برابری کا ہے

اپنی آنکھیں بچا کے رکھنا تم
اس گلی روشنی زیادہ ہے

اتنی راس آ گئی ہے تنہائی
خود سے ملنا بھی اب اکھرتا ہے

آج کے دن جدا ہوا تھا وہ
آج کا دن پہاڑ جیسا ہے

خود کو کب تک سمیٹنا ہوگا
اس نے کتنا مجھے بکھیرا ہے

رنگ تعبیر کا خدا جانے
خواب آنکھوں میں تو سنہرا ہے

چاہے مٹھی میں ایک جگنو ہو
کوئی پوچھے کہو ستارہ ہے