وہ نگاہ مل کے نگاہ سے بہ ادائے خاص جھجھک گئی
تو برنگ خوں مری آرزو مری چشم تر سے ٹپک گئی
کبھی اشک بن کے ڈھلک گئی کبھی رشک بن کے جھلک گئی
وہ شراب جام حیات سے جو شباب بن کے چھلک گئی
مری آہ صاعقہ بار جب مرے طور دل پہ چمک گئی
جو زمیں سے تا بہ فلک گئی تو فلک سے تا بہ سمک گئی
میں زہے نصیب گھرا ہوا ہوں تجلیوں کے ہجوم میں
یہ شعاع کس کے جمال کی مری ظلمتوں میں چمک گئی
اسی بے پناہ نگاہ کا مجھے بار بار ہدف بنا
کہ دل آج جھوم کے دل بنا رگ جاں بھی میری پھڑک گئی
پس دفن بھی نہ سکوں ملا تہ خاک حسرت عشق کو
کبھی سبزہ بن کے لہک اٹھی کبھی پھول بن کے مہک گئی
تری چشم مست نے ساقیا بھرے میکدے کو بھلا دیا
کبھی یاد بن کے برس گئی کبھی شیشہ بن کے کھنک گئی
کوئی کاش آ کے وقارؔ کے بھی شکستہ ساز کو چھیڑ دے
وہ جنوں نواز ہوا چلی وہ قبائے غنچہ مسک گئی
غزل
وہ نگاہ مل کے نگاہ سے بہ ادائے خاص جھجھک گئی
وقار بجنوری