وہ نگاہ چشم طلسم گر مجھے دیکھتے ہی لجا گئی
وہ ادا جو سحر تمام سے بھی سوا کرشمہ دکھا گئی
یہی جام پرتو رخ ترا یہی تیری زلف کو آئینہ
مہ و ابرو مئے کی حسیں فضا اسے روکنا یہ فضا گئی
وہ مثال برق نمود گم گشتگی تبسم بے اماں
شفق آفریں سی وہ موج لب دل و جاں میں آگ لگا گئی
وہ سیاہ رنگ شمیم شام وصال کی جو نوید ہے
اس الم گزیدہ فراق میں وہی زلف یاد پھر آ گئی
شہہ دلبراں تجھے کیا خبر دل رند خاک نشیں ہے کیا
اسی خاک نے اسے دل کیا یہی خاک اس کو مٹا گئی
وہ ستم شعار سہی مگر ہے وہی قرار دل و نظر
وہ رہے تو رسم وفا رہے نہ رہے تو رسم وفا گئی
غزل
وہ نگاہ چشم طلسم گر مجھے دیکھتے ہی لجا گئی
نیاز حیدر