وہ نظر مجھ سے خفا ہو جیسے
جسم سے روح جدا ہو جیسے
یوں اٹھا میرے نشیمن سے دھواں
درد پہلو سے اٹھا ہو جیسے
زندگی اپنے ہی زخموں کے سبب
کسی مفلس کی قبا ہو جیسے
انتظار اس کا مرا تار نفس
یک بہ یک ٹوٹ گیا ہو جیسے
سانحے کرتے ہیں محورؔ کو تلاش
مرکز کرب و بلا ہو جیسے
غزل
وہ نظر مجھ سے خفا ہو جیسے
محور نوری