EN हिंदी
وہ نظر مجھ سے خفا ہو جیسے | شیح شیری
wo nazar mujhse KHafa ho jaise

غزل

وہ نظر مجھ سے خفا ہو جیسے

محور نوری

;

وہ نظر مجھ سے خفا ہو جیسے
جسم سے روح جدا ہو جیسے

یوں اٹھا میرے نشیمن سے دھواں
درد پہلو سے اٹھا ہو جیسے

زندگی اپنے ہی زخموں کے سبب
کسی مفلس کی قبا ہو جیسے

انتظار اس کا مرا تار نفس
یک بہ یک ٹوٹ گیا ہو جیسے

سانحے کرتے ہیں محورؔ کو تلاش
مرکز کرب و بلا ہو جیسے