وہ نہیں ہے تو زندگی کیسی
اس اندھیرے میں روشنی کیسی
دل کی بربادیوں کے ماتم پر
زیر لب ہے ترے ہنسی کیسی
کون رہ رہ کے یاد آتا ہے
دل میں رہتی ہے بیکلی کیسی
سوز دل نے بدن جلا ڈالا
پھر مرے رخ پہ تازگی کیسی
ہم سفر ہو کے کارواں لوٹا
رہبری میں یہ رہزنی کیسی
مجھ کو احساس آسماں نہ رہا
چھاؤں زلفوں کی تھی گھنی کیسی
مجھ سے برباد عشق پر اے دوست
محو حیرت ہوں برہمی کیسی
رسم دنیا عجیب ہے یارو
غم ہی غم ہے یہاں خوشی کیسی
دل کی دنیا تباہ کر ڈالی
یہ شرارت یہ دل لگی کیسی
کس کی نظروں میں آ گیا میں نظیرؔ
میرے شعروں میں نغمگی کیسی
غزل
وہ نہیں ہے تو زندگی کیسی
نظیر رامپوری