EN हिंदी
وہ نغمگی کا ذائقہ اس کی صدا میں تھا | شیح شیری
wo naghmagi ka zaiqa uski sada mein tha

غزل

وہ نغمگی کا ذائقہ اس کی صدا میں تھا

سوہن راہی

;

وہ نغمگی کا ذائقہ اس کی صدا میں تھا
پھیلا ہوا وہ نور سا ساری فضا میں تھا

چپ چاپ بے زباں کوئی میری انا میں تھا
ورنہ کہاں یہ حوصلہ میری بنا میں تھا

وہ میرے سانس کی دھنک میں جھولتا تھا کون
کس کا تھا رنگ روپ جو حسن خلا میں تھا

جو چھو رہا تھا میرے بدن ہی کو بار بار
تیرے خلوص کا کوئی جھونکا ہوا میں تھا

جاں سے گزر کے بھی کبھی شاید نہ یہ کھلے
جادو یہ کس نگاہ کا میری نگہ میں تھا

کل رات بہہ رہا تھا جو بارش کے نام سے
میرا ہی ایک اشک تر ساری گھٹا میں تھا