وہ مسلسل چپ ہے تیرے سامنے تنہائی میں
سوچتا کیا ہے اتر جا بات کی گہرائی میں
سرخ رو ہونے نہ پایا تھا کہ پیلا پڑ گیا
چاند کا بھی ہاتھ تھا جذبات کی پسپائی میں
بے لباسی ہی نہ بن جائے کہیں تیرا لباس
آئینے کے سامنے پاگل نہ ہو تنہائی میں
تو اگر پھل ہے تو خود ہی ٹوٹ کر دامن میں آ
میں نہ پھینکوں گا کوئی پتھر تری انگنائی میں
رات بھر وہ اپنے بستر پر پڑا روتا رہا
دور اک آواز بنجر ہو گئی شہنائی میں
دائرے بڑھتے گئے پرکار کا منہ کھل گیا
وہ بھی داخل ہو گیا اب سرحد رسوائی میں
حبس تو دل میں تھا لیکن آنکھ تپ کر رہ گئی
رات سارا شہر ڈوبا درد کی پروائی میں
آنکھ تک بھی اب جھپکنے کی مجھے فرصت نہیں
نقش ہے دیوار پر تصویر ہے بینائی میں
لوگ واپس ہو گئے ساجدؔ نمائش گاہ سے
اور میں کھویا رہا اک محشر رعنائی میں
غزل
وہ مسلسل چپ ہے تیرے سامنے تنہائی میں
اقبال ساجد