وہ مزاج پوچھ لیتے ہیں سلام کر کے دیکھو
جو کلام ہو کچھ اس میں تو کلام کر کے دیکھو
کئی رند شیخ ایسے بھی ہیں دخت رز پہ شیدا
جو حلال کر کے رکھ دیں گے حرام کر کے دیکھو
تم اسی لئے بنے ہو کہ بناؤ باتیں واعظ
کسی کام کے اگر ہو تو وہ کام کر کے دیکھو
یہ ہمیں بھی دیکھنا ہے تمہیں کیا کہے گی دنیا
جو کرم ہے خاص ہم پر اسے عام کر کے دیکھو
جو نصیب آزمانا ہے تو رات کیسی دن کیا
کہیں صبح کر کے دیکھو کہیں شام کر کے دیکھو
غم زیست کو نہ دیکھو کہ فریب زندگی ہے
یہ مسرتوں کے ارماں تو تمام کر کے دیکھو
کوئی جنس دل کا شاید تمہیں مل بھی جائے گاہک
کہیں لے کے جاؤ ناطقؔ کبھی دام کر کے دیکھو
غزل
وہ مزاج پوچھ لیتے ہیں سلام کر کے دیکھو
ناطق گلاوٹھی