وہ مزاج دل کے بدل گئے کہ وہ کاروبار نہیں رہا
مری جان تیرے فراق میں کوئی سوگوار نہیں رہا
تری آرزو کہیں کھو گئی مری جستجوئے فضول میں
مجھے عین وقت وصال میں ترا انتظار نہیں رہا
نہ خرد رہی نہ جنوں بچا دل پر غرور یہ کیا ہوا
تجھے اپنے آپ پہ خود بھی اب ذرا اعتبار نہیں ہے
دم اولیں کے وہ سلسلے وہ تمام کار جہاں مرے
رہے ناتمام کہ راہ میں دم مستعار نہیں رہا
تری بزم جو یہ سجی نئی یہاں سارا حسن ہے اجنبی
کوئی چشم اب نہیں سرمگیں کوئی گلعذار نہیں رہا
یہاں معبدوں کے ہجوم میں نہ بچا ہے کوئی بھی مے کدہ
کسے شہر میں کہیں ہم نوا کوئی بادہ خوار نہیں رہا
غزل
وہ مزاج دل کے بدل گئے کہ وہ کاروبار نہیں رہا
سلیمان احمد مانی