وہ ملے ہیں مگر ملول ہیں ہم
جو خزاں میں کھلے وہ پھول ہیں ہم
ہم کو ظلمت پناہ مت جانو
اک نئی صبح کے رسول ہیں ہم
اس توجہ کا کیا ٹھکانہ ہے
تیری پہلی نظر کی بھول ہیں ہم
تشنگی تو ہمیں قبول نہ تھی
تشنگی کو مگر قبول ہیں ہم
اس بدلتی نگاہ سے پوچھو
عشق کا معتبر اصول ہیں ہم
کتنے بے کیف کس قدر بے رنگ
کس کی تخلیق کا حصول ہیں ہم
پیار کی چاندنی میں کھلتے ہیں
دشت انسانیت کے پھول ہیں ہم
زندگی نے کہا اجالا ہیں
موت نے جب کہا فضول ہیں ہم
آج بھی میر کارواں تم ہو
آج بھی رہ گزر کی دھول ہیں ہم

غزل
وہ ملے ہیں مگر ملول ہیں ہم
مسعود میکش مراد آبادی