وہ میرے وجود کا صلہ ہے
یا روح کے واسطے ردا ہے
کس دل سے لہو کی فصل بوئیں
جب خون ہی خون سے جدا ہے
ہر شخص ہے دشمنوں کی زد پر
اب مجھ سا کوئی کہاں رہا ہے
ہر سمت اداسیاں ملی ہیں
حالات سے بس یہی گلہ ہے
چہرے پہ مسرتیں سجائے
جو بھی غموں میں پل رہا ہے
منظرؔ اسے جانتا میں کیسے
جو مجھ کو کبھی نہیں ملا ہے

غزل
وہ میرے وجود کا صلہ ہے
جاوید منظر