وہ میرے شیشۂ دل دل پر خراش چھوڑ گیا
دیار روح میں اک ارتعاش چھوڑ گیا
قدم قدم پہ ہوا جب منافقت کا شکار
تو اپنے شہر کی وہ بود و باش چھوڑ گیا
وہاں سے منزل عرفان ذات دور نہ تھی
وہ جس مقام پہ اس کی تلاش چھوڑ گیا
وہ شخص آپ ہی قاتل تھا آپ ہی مقتول
جہاں جہاں بھی گیا اپنی لاش چھوڑ گیا
کمال درجہ تھا اس میں شعور تیشہ گری
مرے وجود کو وہ پاش پاش چھوڑ گیا
تھا اس کے دست ہنر میں بھی آذری کا کمال
مگر وہ اپنا ہی بت ناتراش چھوڑ گیا
غزل
وہ میرے شیشۂ دل دل پر خراش چھوڑ گیا
ہیرا نند سوزؔ