EN हिंदी
وہ میرے شہر میں آیا ہوا ہے | شیح شیری
wo mere shahr mein aaya hua hai

غزل

وہ میرے شہر میں آیا ہوا ہے

عارف اشتیاق

;

وہ میرے شہر میں آیا ہوا ہے
کڑکتی دھوپ میں سایا ہوا ہے

تمہارے پیار میں ٹوٹا ہوا دل
کسی کے حسن پہ آیا ہوا ہے

دل برباد کو تیرے سبب سے
نئی الفت میں الجھایا ہوا ہے

محبت نے مرے سے تند خو کو
سر بازار کھنچوایا ہوا ہے

مجھے ملنے کو اس نے تنگ کرتا
بطور خاص سلوایا ہوا ہے

ندامت سخت ہے پر ہے خوشی بھی
اسے خلوت میں بلوایا ہوا ہے