وہ میرا ہے تو کبھی بھی نہ آزماؤں اسے
مرا نہیں ہے تو پھر کس لئے ستاؤں اسے
وہ ماہتاب سے بڑھ کر کے ہو گیا سورج
جو خود بھی آئے تو کیسے گلے لگاؤں اسے
میں چاہتا ہوں مرا پیار اس سے ایسا ہو
وہ روٹھتا رہے میں بارہا مناؤں اسے
تمام دن کی مشقت بھری تکان کے بعد
تمام رات محبت سے پھر جگاؤں اسے
مرا حبیب مرے عشق میں کھلونا ہو
وہ ٹوٹ جائے تو پھر جوڑ کر بناؤں اسے
ہوا کرے مرا اس سے مقابلہ یوں بھی
اسی سے جیت کے اس کو ہی ہار جاؤں اسے
وہ جانتا ہے مرے ہر سوال کا مطلب
اگر جواب بھی دے دے تو مان جاؤں اسے
یہی دعا ہے مری رب دو جہاں سے بلالؔ
کسی سے عہد کروں گر تو پھر نبھاؤں اسے
غزل
وہ میرا ہے تو کبھی بھی نہ آزماؤں اسے
اشہد بلال ابن چمن