EN हिंदी
وہ مہرباں ہو تو صحرا بھی گلستاں ہو جائیں | شیح شیری
wo mehrban ho to sahra bhi gulistan ho jaen

غزل

وہ مہرباں ہو تو صحرا بھی گلستاں ہو جائیں

عرفان وحید

;

وہ مہرباں ہو تو صحرا بھی گلستاں ہو جائیں
اگر خفا ہو تو برہم ستار گاں ہو جائیں

ہوائیں شوق سمندر کی مہرباں ہو جائیں
طلب سفینہ ہو ارمان بادباں ہو جائیں

بیاس دوستی اتنے بھی اب نہ دو الزام
کہ ہم خود اپنی طرف سے بھی بد گماں ہو جائیں

قلندروں کے لیے شہر کیا ہے صحرا کیا
غرض تو ٹھور ٹھکانوں سے ہے جہاں ہو جائیں

تمہاری یاد کرے ایسے دل میں گھر اپنا
ہم اپنے گھر میں بتدریج میہماں ہو جائیں

تری رضا رہی شامل تو اس مسافت میں
سلگتے دشت کی دھوپیں بھی سائباں ہو جائیں

جو ہو یقین تو بس اک چراغ کافی ہے
نہ ہو تو لاکھ مہ و مہر رائیگاں ہو جائیں

چلو شگاف بنائیں فصیل وقت میں ہم
عجب نہیں کہ بہم سارے رفتگاں ہو جائیں

جو صید دام جنوں تھے وہ پا گئے منزل
اسیر دانش و بینش نہ بے نشاں ہو جائیں

فضول ٹھہرے تگ و تاز عمر بھی ساری
ہتھیلیوں کی لکیریں بھی رائیگاں ہو جائیں

وفا کی جنس ہیں عرفانؔ ہم بھی ارزاں ہیں
خرید لو کہیں ایسا نہ ہو گراں ہو جائیں