وہ محفلیں وہ مصر کے بازار کیا ہوئے
اے شہر دل ترے در و دیوار کیا ہوئے
ڈسنے لگی ہیں ہم کو زمانے کی رونقیں
ہم جرم عاشقی کے سزا وار کیا ہوئے
اتنی گریز پا تو نہ تھی عمر دوستی
اے خندۂ خفی ترے اقرار کیا ہوئے
پھولوں نے بڑھ کے پاؤں میں زنجیر ڈال دی
وارفتگی میں مائل گلزار کیا ہوئے
جن کا جمال جنت قلب و نظر رہا
وہ ہم نشیں وہ یار طرح دار کیا ہوئے
ہم اس طرح تو یوسف بے کارواں نہ تھے
اے دل تو ہی بتا ترے غم خوار کیا ہوئے
امید وصل یار میں شب کاٹ دی تو کیا
دن ڈھل گیا تو نیند سے بیدار کیا ہوئے
آنے سے ان کے ڈوبتی نبضیں سنبھل گئیں
آسان مرحلے مرے دشوار کیا ہوئے
غزل
وہ محفلیں وہ مصر کے بازار کیا ہوئے
ظہیر کاشمیری