EN हिंदी
وہ لوگ ہی ہر دور میں محبوب رہے ہیں | شیح شیری
wo log hi har daur mein mahbub rahe hain

غزل

وہ لوگ ہی ہر دور میں محبوب رہے ہیں

جاں نثاراختر

;

وہ لوگ ہی ہر دور میں محبوب رہے ہیں
جو عشق میں طالب نہیں مطلوب رہے ہیں

طوفان کی آواز تو آتی نہیں لیکن
لگتا ہے سفینے سے کہیں ڈوب رہے ہیں

ان کو نہ پکارو غم دوراں کے لقب سے
جو درد کسی نام سے منسوب رہے ہیں

ہم بھی تری صورت کے پرستار ہیں لیکن
کچھ اور بھی چہرے ہمیں مرغوب رہے ہیں

الفاظ میں اظہار محبت کے طریقے
خود عشق کی نظروں میں بھی معیوب رہے ہیں

اس عہد بصیرت میں بھی نقاد ہمارے
ہر ایک بڑے نام سے مرعوب رہے ہیں

اتنا بھی نہ گھبراؤ نئی طرز ادا سے
ہر دور میں بدلے ہوئے اسلوب رہے ہیں